ایک ایسے وقت میں جب پناہ گزينوں کے بحران پر ایک حتمی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کے تحت یورپی یونین کے رہنما ترکی کے وزیر اعظم کو ایک مشترکہ موقف پیش کرنے جا رہے ہیں، ملک کے صدر رجب طیب اردوگان نے یورپی یونین پر تارکین وطن، انسانی حقوق اور دہشتگردی کے حوالے سے منافقت کا الزام لگایا ہے۔
یورپی یونین کی جانب سے اس مطالبے کے بعد کہ ترکی تارکین وطن کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے اپنے قوانین میں تبدیلی کرے، صدر رجب طیب اردوگان کا کہنا تھا کہ یورپ ایسے گروہوں کی براہ راست یا بالواسطہ مدد کر کے جنھیں ترکی دہشتگرد سمجھتا ہے، دراصل خود ایک ایسے میدان میں رقص کر رہا ہے جو بارودی سرنگوں سے اٹا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ یورپی یونین کے رہنماؤں نے ترکی کے قوانین میں تبدیلی کے مطالبے کے علاوہ صدر اردوگان پر ترکی میں ذرائع ابلاغ پر سختی کے حوالے سے بھی تنقید کی تھی۔
ترک صدر کا کہنا تھا کہ ’ایسی کوئی وجہ نہیں کہ جو بم انقرہ میں پھٹا وہ برسلز یا کسی دوسرے یورپی شہر میں نہیں پھٹ سکتا۔‘
’یہ حقیقت کہ یورپی ممالک ابھی تک غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے میدان میں محو رقص ہیں جو بارودی سرنگوں سے بھرا ہوا ہے۔‘
’وہ تمام (ممالک) جو بلاواسطہ یا بالواسطہ دہشتگرد تنظیموں سے گلے مل رہے ہیں اور ان کی مدد کر رہے ہیں، انھیں میں ایک مرتبہ پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ لوگ ایک سانپ کے ساتھ سو رہے ہیں۔ وہ سانپ جس کے ساتھ آپ سو رہے ہیں، وہ آپ کو بھی کاٹ سکتا ہے۔‘
صدر اردوگان کے بقول ’جب آپ (یورپی ممالک) اپی ٹی وی سکرینوں پر بم پھٹتے دیکھتے ہیں تو یہ آپ کو بے معنی لگتا ہے، لیکن جب وہی بم آپ کے اپنے شہروں میں پھٹنا شروع ہو جائیں گے تو آپ کو احساس ہو گا کہ جب بم پھٹے تو کیسا لگتا ہے۔ لیکن شاید اس وقت بہت دیر ہو چکی ہو۔‘
طیب اردوگان کے اس سخت بیان سے قبل پناہ گزينوں کے بحران پر ایک حتمی معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کے تحت یورپی یونین کے رہنماؤں نے ترکی کو ایک مشترکہ موقف پیش کرنے پر اتفاق کر لیا تھا۔
اس مسئلے پر اہم میٹنگ کے بعد لگسمبرگ کے وزیراعظم زیویئر بیٹلز نے کہا کہ جمعے کی صبح یورپی یونین کے مشترکہ موقف کو ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
یورپی یونین کے مجوزہ معاہدے میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام پناہ گزينوں کو ترکی واپس بھیج دیا جائے گا۔
اس کے بدلے میں یورپی یونین ترکی کو مالی مدد پیش کرسکتی ہے اور ترک شہریوں کو یورپی ممالک میں ویزا فری داخلے کی اجازت بھی مل جائے گی۔
لیکن ای یو کے اس مشترکہ موقف پر ترکی کا ردِ عمل کیا ہوگا یہ ابھی واضح نہیں ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ تمام پناہ گزينوں کے تحفظ کے لیے ترکی کو عالمی معیار اپنانا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت ترکی سے پناہ گزینوں کی یورپی ممالک میں باز آبادکاری کا عمل یونان سے پناہ گزینوں کی واپسی کے پہلے مرحلے کے چند روز بعد ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔
انگیلا میرکل نے مزید کہا کہ پناہ گزينوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہونے کے سبب نظام درہم برہم ہونے سے پہلے ہی یورپی یونین کو یونان سے پناہ گزينوں کو ترکی کو واپس بھیجنے کا عمل تیزي سے شروع کرنا چاہیے۔
لیکن لیتھوانیا کی صدر ڈالیا گریبیسکیٹی نے کہا کہ پناہ گزينوں کو اس طرح یونان سے ترکی واپس بھیجنا عالمی قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس پر عمل کرنا بھی مشکل ہے۔
ترکی کے وزیراعظم احمد داؤد اوغلو کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ترکی پناہ گزينوں کی کھلی جیل بن جائے۔
فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے بھی اس مشترکہ موقف پر کوئی خاص گرمجوشی نہیں دکھائی۔ ان کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ اس مسئلے کے حل کی کوششوں کے نتائج خوش آئند ہی ہوں گے۔‘
پناہ گزینوں سے متعلق مجوزہ منصوبے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ترکی سے یونان پہنچنے والے تمام پناہ گزينوں کو واپس بھیج دیا جائے گا اور ہر واپس بھیجے جانے والے شامی شہری کے بدلے ترکی میں پہلے سے پناہ گزین شامیوں میں سے ایک کی یورپ میں باز آباد کاری کی جائے گی۔
برسلز میں جاری اس اہم اجلاس میں جمعہ کو ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو بھی شرکت کرنے والے ہیں۔
گذشتہ سال سے اب تک دس لاکھ سے بھی زیادہ پناہ گزین غیرقانونی طور پر یورپ میں داخل ہوئے جن میں سے ایک بڑی تعداد ترکی سے یونان آنے والوں کی ہے۔
یورپی یونین چاہتی ہے کہ ترکی ان تارکینِ وطن کو واپس لے جو مہاجرین کا درجہ حاصل کرنے کے اہل نہیں ہیں اور ترکی اپنے پانیوں کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرے۔
Comments are closed.