ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے یمن کی صورتِ حال کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ نہیں رکھی ہے اور اسی لیے ہم پارلیمان سے رہنمائی چاہتے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی کمان میں جاری عسکری آپریشن میں پاکستان کے کردار پر بحث کی جا رہی ہے۔
اجلاس کے دوسرے دن وزیرِاعظم نے ایوان سے خطاب میں کہا کہ اُن کی حکومت اراکین ِ پارلیمان کے مشوروں کو نیک نیتی کے ساتھ پالیسی کا حصہ بنائے گی، کیونکہ یمن کا مسئلہ ایک حساس مسئلہ ہے۔
نواز شریف کے مطابق ’حکومت نے کوئی فیصلہ خفیہ طور پر نہیں کرنا بلکہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس تجاویز کے لیے طلب کیا ہے اور ان تجاویز سے ہی پالیسی ترتیب دی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی کے صدر کی سعودی وزیر داخلہ سے ملاقات ہوئی ہے، ترک صدر سے مزید مشاورت کے بعد مشترکہ پالیسی بنائیں گے جبکہ ایران کے وزیر خارجہ بھی پاکستان آ رہے ہیں۔
یمن کی صورتِ حال پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں منگل کو شروع ہوا تو حزب اختلاف کی جماعتوں نے اپنے موقف سے آگاہ کیا۔
مسلم لیگ (ق) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یمن میں ہونے والی جنگ سے سعودی زمین کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کو یمن میں جنگ بندی اور قیامِ امن کی کوشش کرنی چاہیے۔
انھوں نے تجویز دی کہ پاکستان یا ترکی کو سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ کی ملاقات کروا کر، ان کے تنازعات ختم کروانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے کہا عرب سپرنگ کے بعد خطے کی سیاست بدل رہی ہے اور بدقسمتی سے عرب ملک خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو خطے کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
میر حاصل بزنجو نے کہا کہ مشرق وسطی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کا تعلق نہیں ہے بلکہ اس صورت حال کو مشرق وسطیٰ کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
انھوں نے تجویز دی کہ مسئلے کو سفارتی طریقے سے حل کیا جائے۔
Comments are closed.