سندھ ہائی کورٹ نے ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر اور پاک سرزمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی کی جانب سے دائر کی گئی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
ادھر ملیر پولیس نے وسیم اختر کو عدالت میں پیش کر کے ان کا جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کر لیا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے منگل کو دہشت گردوں کے علاج معالجے میں معاونت کے مقدمے میں انیس قائم خانی اور وسیم اختر کی ضمانت منسوخ کر دی تھی جس کے بعد دونوں کو سابق صوبائی وزیرِ داخلہ رؤف صدیقی سمیت گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے بعد میں گرفتاری دے دی تھی۔
٭ کراچی میں گرفتار سیاسی رہنماؤں کا ہائی کورٹ سے رجوع
٭ کراچی کے نامزد میئرسمیت چار سیاسی رہنما گرفتار
جسٹس احمد علی شیخ کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے جمعرات کو پاک سر زمین پارٹی کے رہنما انیس قائم خانی کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے انھیں متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی جبکہ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کے کاغذات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی درخواست بھی مسترد کر دی۔
انیس قائم خانی نے اپنی ضمانت کی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ جے آئی ٹی میں ان کا نام براہ راست شامل نہیں ہے اور جن گواہوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کا تعلق گینگ وار سے ہے اور ان کے بیانات کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔
وسیم اختر کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ خود عدالت میں پیش ہوئے ہیں ان پر عائد الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔
واضح رہے کہ سابق وزیر پیٹرولیم ڈاکٹر عاصم کے اعترافی بیان کی روشنی میں رینجرز نے ایف آئی آر درج کرائی تھی کہ ڈاکٹر عاصم نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے انیس قائم خانی، وسیم اختر، رؤف صدیقی اور عبدالقادر پٹیل کے کہنے پر ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں اور بھتہ خوروں کے علاج میں معاونت کی تھی۔
ملیر پولیس نے جمعرات کو ایم کیو ایم کی جانب سے شہر کے نامزد میئر وسیم اختر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے انتظامی جج کے سامنے پیش کیا جہاں بتایا گیا کہ ان کے خلاف سچل اور ملیر سٹی تھانے میں قومی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمات درج ہیں۔
اس پر عدالت نے انھیں 28 جولائی تک پولیس کی تحویل میں دے دیا۔
یاد رہے کہ یہ مقدمات کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی تقریر کے بعد دائر کیے گئے تھے۔ وسیم اختر کا کہنا ہے کہ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اس موقع پر تالیاں بجائی تھیں۔
Comments are closed.