بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے حالیہ احتجاجی لہر کی وجہ سے دو ہفتوں سے مواصلاتی رابطوں پر عائد پابندی کو جزوی طور پر ہٹا لیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں موبائل فون کی پوسٹ پیڈ فون سروس بحال کی گئی ہے، تاہم پری پیڈ کنکشنز اور وائرلیس انٹرنیٹ پر پابندی بدستور برقرار ہے۔
٭پیلٹ گن مارتی نہیں زندہ لاش بنا دیتی ہے
٭’پاکستان کا خواب قیامت تک پورا نہیں ہوگا‘
آٹھ جولائی کو جنوبی کشمیر کے علاقے کوکر ناگ میں پولیس آپریشن میں مسلح علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر میں انڈیا مخالف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔
اس تحریک کے دوران اب تک مظاہرین پر انڈین فورسز کی فائرنگ سے 50 سے زائد افراد ہلاک اور 2000 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
کرفیو اور ناکہ بندی کے باعث پوری وادی کے مکین 17 روز سے محصور ہیں اور مواصلات کے تمام ذرائع پر پابندی کی وجہ سے مکین باہر کی دُنیا سے ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں۔
مواصلاتی رابطوں پر لگائی گئی پابندی کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل ظاہر کیا گیا تھا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ انٹرنیٹ اور فون رابطوں کو بحال کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے منگل کو سکیورٹی حکام اور خفیہ اداروں کے سربراہوں کا ایک اجلاس سرینگر میں طلب کیا جس میں ان پابندیوں کا جائزہ لیا گیا۔
اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں صرف ایسے موبائل فونز کو بحال کیا جائے گا جو ماہانہ کرایہ اور کال چارجز کے عوض چلتے ہیں۔ تاہم پری پیڈ یعنی ٹاک ٹائم خریدنے کی سہولت والے فون نمبرز اور وائرلیس انٹرنیٹ پر پابندی کے بارے میں اگلے اجلاس میں فیصلہ لیا جائے گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ فون رابطوں اور انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے کشمیر کی آبادی نفسیاتی تناؤ کا شکار ہوگئی ہے۔
ڈاکٹرز ایسوسی ایشن آف کشمیر کے سربراہ ڈاکٹر نثار الحسن نے بی بی سی کو بتایا: ’ان دو ہفتوں کے دوران میرے پاس ایسے سینکڑوں مریض آئے جو تفسیاتی تناؤ کا شکار تھے۔ ان کے اقربا نے مجھے بتایا کہ ان کے پیارے گھروں سے دُور ہیں اور وہ دو ہفتوں سے ان کے ساتھ بات نہیں کر پائے ہیں۔‘
ڈاکٹر نثار کے مطابق طویل عرصے تک مواصلاتی ذرائع پر پابندی کی وجہ لوگوں کے مشتعل ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
واضح رہے 17 روزہ کشیدگی میں پہلی بار منگل کو علیحدگی پسندوں نے دوپہر کے بعد عام خریداری کے لیے ہڑتال کو معطل کیا تھا لیکن بازاروں میں خریداری کی بجائے لوگوں نے جگہ جگہ مظاہرے کیے اور مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کی وجہ سے دُکانیں دوبارہ بند ہوگئیں۔
علیحدگی پسندوں نے جمعے تک ہڑتال کی اپیل کی ہوئی ہے۔ علیحدگی پسند رہنماوں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے مشترکہ بیان میں لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں اور دیگر غریب لوگوں کی ہر طرح سے امداد و اعانت کریں۔
ادھر حکام کا کہنا ہے کہ جنوبی کشمیر کے چار اضلاع کے علاوہ وادی کے سبھی علاقوں سے کرفیو ہٹا لیا گیا ہے۔ تاہم کشیدگی سے نمٹنے کے لیے جن تین ہزار اضافی فورسز اہلکاروں کو کشمیر بھیجا گیا تھا، وہ اب بھی تعینات ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گذشتہ 17 روز میں اب تک مشتعل مظاہرین اور سرکاری فورسز کے درمیان 650 سے زیادہ تصادم ہوئے جن میں سے 75 ایسے تصادم تھے جن کے دوران مظاہرین نے پولیس تھانوں اور فورسز کیمپوں پر دھاوا بول دیا۔
پولیس کے مطابق اس عرصہ میں پولیس اور دوسرے محکموں کی 25 عمارتوں کو نذرآتش کردیا گیا جبکہ 50 عمارات کو نقصان پہنچا ہے۔
حکومت ہند کی طرف سے ابھی تک کشمیر کی صورتحال سے متعلق کوئی سیاسی پیش قدمی نہیں کی گئی ہے۔ گذشتہ اتوار کو بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے واضح کردیا کہ وادی میں حالات معمول پر آنے کے بعد ہی مذاکراتی عمل کے بارے میں کوئی بات کی جائے گی۔
Comments are closed.