صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں 180 تعلیمی ادارے حساس ہیں جن میں خاص طور پر مشنری اور کیمبرج نظام تعلیم فراہم کرنے والے ادارے شامل ہیں۔
صوبائی کابینہ کے اجلاس میں سندھ حکومت نے تعلیمی اداروں کے لیے 19 نقاطی سکیورٹی پلان تشکیل دیا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت اجلاس میں کابینہ نے سندھ بلخصوص کراچی میں تعلیمی اداروں میں سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے رینجرز اور پولیس سٹینڈ بائی رہیں گے۔
وزیر اعلیٰ کے ترجمان کے مطابق کابینہ میں فیصلہ کیا گیا کہ نجی سکول کے ملازمین اور اساتذہ کا بائیو میٹرک اور سکول میں پیرنٹس اینڈ ٹیچرز ایسوسی ایشن کو بحال اور فعال بنایا جائے گا۔
نجی سکولوں میں کلوز سرکٹ کیمروں اور واک تھرو گیٹس کی تنصیب کو بھی لازمی قرار دیا گیا اس کے علاوہ نجی اداروں کی چار دیواری کو بھی اونچا کیا جائے گا۔
آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے صوبائی کابینہ کو آگاہ کیا کہ آپریشن کے دوران 167 مدارس کو سیل کیا گیا تھا جن میں سے 53 میں دہشت گردی کے شک و شبہات تھے اور ان میں سے 32 کی تلاشی بھی لی گئی لیکن کوئی قابل اعتراض اشیا برآمد نہیں ہوسکی تھیں۔
گذشتہ سال آپریشن کے دوران ’القاعدہ کے 3، کالعدم تحریک طالبان کے 114، لیاری امن کمیٹی کے 201 کارندوں سمیت 2025 ملزمان کو مقابلوں میں ہلاک کیا گیا۔‘
آئی جی نے بتایا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں 3700 کے قریب مقدمات بھیجے گئے ہیں جبکہ فوجی عدالتوں میں سماعت کے لیے 103 مقدمات کی سفارش کی گئی ان میں سے 25 کی منظوری دہے دی گئی جبکہ تین زیرسماعت ہیں۔
محکمہ داخلہ کے سپیشل سیکریٹری وسیم احمد منے عدالت کو بتایا کہ گواہوں کے تحفظ کے لیے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اور گواہوں کے بیانات ویڈیو لنک کے ذریعے رکارڈ کرنے کے تجویز پر بھی غور کیا جارہا ہے اس کے لیے محکمہ داخلہ میں ایک سپیشل سیل بنا دیا گیا ہے۔
Comments are closed.