پاکستان میں سی آئی اے کےسربراہ کے خلاف مقدمے کا حکم

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے پولیس کے سربراہ کو حکم دیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے پاکستان میں سربراہ کے خلاف مقدمہ درج کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔

عدالت نے یہ حکم قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں میں ہلاکتوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران دیا۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے اُن کے حدود میں نہیں آتے، اس لیے وہ سی آئی اے کے خلاف مقدمہ کیسے درج کر سکتے ہیں۔

drone

سی آئی اے کے خلاف مقدمہ سے سفارتی تعلقات متاثر ہوں گے

عدالت نے یہ حکم جنوبی وزیر ستان کے ہیڈ کوارٹر وانہ کے رہائشی عبدالکریم کی درخواست پر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی حکم کے باوجود ابھی تک اسلام آباد پولیس کی جانب سے سی آئی اے کے کنٹری ڈائریکٹر جوناتھن بینک کے خلاف مقدمہ درج نہیں ہو رہا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست کی سماعت شروع کی تو اس مقدمے کے سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ سماعت کمرہ عدالت کے بجائے چیمبر میں کی جائے۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ طاہر عالم سے استفسار کیا کہ سی آئی اے کے کنٹری ڈائریکٹر کے خلاف مقدمہ درج کرنے سےمتعلق عدالتی حکم کو ایک سال ہوگیا ہے لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ اس مقدمے میں وزارت خارجہ بھی فریق ہے اور اُن کے بقول اگر یہ مقدمہ درج ہوا تو پھر پاکستان اور امریکہ کے درمیان سفارتی تعلقات متاثر ہونے کا بھی خطرہ ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق چلتی ہیں اور اگر کہیں پر کوئی غیر قانونی کام ہوا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کرنا عدالت کا کام ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آباد پولیس عدالتی حکم کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا سمجھ رہی ہے اس لیے اس پر عملہ درآمد نہیں ہو رہا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگر مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا تو عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو سی آئی اے کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور اس کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاہم اس عدالتی حکم میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنے عرصے میں مقدمہ درج کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔

Comments are closed.