(فارم سے فیشن تک سفید سونا (شمائلہ جاوید بھٹی

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ترکی کے شہر ازمیر میں ”فارم سے فیشن“ تک کپاس یعنی سفید سونا سے متعلق قابل ذکر کانفرنس کا انعقاد 3سے 5اگست تک ہوگا۔ کانفرنسیں تو بہت سی ہوتی رہتی ہیں مگر اس کانفرنس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کسان خواتین کی بحالی اور خوشحالی کی حکمت عملی طے کی جائیگی۔ کانفرنس کے انعقاد کے لئے کسان دوستی کی شہرت رکھنے والے ڈاکٹر شاہد ضیاءکی انتھک محنت شامل ہے جو کہ لوک سانجھ فاﺅنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ ایل ایس ایف پاکستان میں 35ہزار کپاس پیدا کرنے والوں کے ساتھ کام کررہی ہے۔ اس لئے ان کے دکھ سکھ کو بخوبی جانتی ہے۔ ڈاکٹر شاہد ضیاءان کے لئے لکھتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں جن کی نیوز سینس ویلیو نہیں ہوتی اور انہیں چھوٹا کسان کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر شاہد ضیاءتاریخ کا ایک روشن باب نہیں بلکہ خود چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ ماحول دوستی کے حوالے سے میرے لئے یہ معلومات باعث تسکین ہیں کہ زرعی زہروں کے مضر اثرات کے شعور کے نتیجے میں کپاس میں زرعی زہروں کے استعمال میں گیارہ فیصد کمی آ چکی ہے۔ 2008ءمیں پودوں کے تحفظ کے لئے 44بلین امریکی ڈالر کے زہر استعمال کیے گئے جن میں سے سات فیصد کپاس میں استعمال کیے گئے۔ میرے ذہن میں وہ کسان خواتین آ رہی ہیں جن کے ہاتھ پھٹی کی شکل میں زہر چن رہے ہوتے ہیں اور وہ کینسر کا شکار ہو رہی ہوتی ہیں مگر کسی جگہ یہ خبر کسی کی نظر میں نہیں آتی کیونکہ استحصالی جاگیردارانہ نظام میں کسان خواتین کی موت کوئی خبر نہیں ہے۔ بہرحال آئی پی ایم انٹیگریٹڈ پیسٹ منیجمنٹ کا تجربہ پاکستان میں کامیاب بھی ہے اور ماحول دوست بھی۔ تاہم ان تمام ماحول دوست عوامل کے نتیجے میں کپاس کی پیداوار میں کمی بھی آئی ہے جس کو پورا کرنے کے لئے ازمیر میں ہونے والی ”فارم سے فیشن“ کپاس کانفرنس میں پائیدار حکمت عملی تیار کی جائیگی۔ ڈاکٹر شاہد ضیاءکے مطابق اس کانفرنس میں تین اہم امور پر غور کیا جائیگا۔ جن میں سے دنیا میں کپاس کی کمی کیونکہ کپاس کی قیمتوں میں کمی سے کسانوں کی آمدن کم ہو رہی ہے۔ سینتھیٹک مارکیٹ میں کپاس کا بڑا حصہ لے رہا ہے۔ جس کی وجہ سے کپاس کی طلب و رسد میں مزید مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ 2014-15ءمیں دنیا میں کپاس کا پیداواری تخمینہ 119.4ملین بیلز لگایا گیا ہے جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 120.4ملین بیلز تھا۔ 0.83فیصد کم ہے۔ یہ بات خبردارکرنے اور رہنے والی ہے کہ کم و بیش کپاس کے زیر کاشت آدھا رقبہ بائیوٹیک بیج کی اقسام کے استعمال کے باوجود کاٹن کی فراہمی میں کمی کا سامنا ہے۔ اس لئے کاٹن کی پیداوار میں پائیدار طریقے سے اضافے کے لئے نئی ٹیکنالوجی کی دریافت اور استعمال کی سنجیدہ ضرورت ہے۔ عالمی منظر نامے کے تناظر میں یہ بات ابھی تک واضح نہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے پیش نظر کیا کپاس کی پیداوار مستقبل کی ریشے کی ضروریات پوری کرسکیں گی کیونکہ کپاس کے ریشے کی آدھی پیداوار کپڑوں اور دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری میں دنیا بھر میں استعمال ہو رہی ہے جبکہ باقی سنتھیٹک مصنوعات سے پوری ہو رہی ہیں۔
آخر اس کانفرنس کا انعقاد ازمیر میں کیوں رکھا گیا؟۔ ڈاکٹر شاہد ضیاءکانفرنس کے پاکستانی مندوبین کو ترکی سے روحانی وابستگی اور اس کی تاریخ سے آشنا کرانا چاہتے ہیں۔یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ ازمیر بذات خود ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ازمیر (izmir) ترکی کا تیسرا سب سے بڑا شہر اور استنبول کے بعد دوسری بڑی بندرگاہ ہے۔ یہ بحیرہ ایجیئن میں خلیج ازمیر کے ساحلوں پر واقع ہے۔ یہ صوبہ ازمیر کا دارالحکومت ہے۔ شہر 9 شہری اضلاع میں تقسیم ہے۔ 2000 کے مطابق شہر کی آبادی 2409000اور 2005 کے اندازوں کے مطابق 3500000 ہے۔اس شہر کو یونانی سمرنا کہتے تھے جبکہ ترک اسے ازمیر کہتے ہیں۔یہ شہر طویل عرصے تک رومی سلطنت کا حصہ رہا اور رومی سلطنت کی تقسیم کے بعد یہ بازنطینی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ عثمانی سلطان بایزید اول نے 1389 میں اس شہر کو فتح کرکے سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنایا۔ تاہم بایزید کی تیموری سلطان امیر تیمور کے ہاتھوں شکست کے ساتھ ہی شہر دوبارہ مقامی ترک قبائل کو مل گیا۔ 1425 میں سلطان مراد ثانی نے سمرنا کو دوبارہ فتح کیا۔ سقوط غرناطہ کے بعد اسپین سے نکالے گئے یہودیوں کی اکثریت بھی اسی شہر میں آئی۔پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد فاتحین نے اناطولیہ کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ لیا اور معاہدہ سیورے کے تحت ترکی کا مغربی حصہ بشمول سمرنا یونان کے حصے میں آیا۔ 15 مئی 1919 کو یونانی افواج نے ازمیر پر قبضہ کرلیا لیکن وسط اناطولیہ کی جانب پیش قدمی ان کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی اور 9 ستمبر 1922 کو ترک افواج نے ازمیر کو دوبارہ حاصل کرلیا۔ جس کے ساتھ ہی یونان۔ترک جنگ کا خاتمہ ہوگیا اور معاہدہ لوزان کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان آبادی کی منتقلی بھی عمل میں آئی۔ ازمیر “ایجیئن کا موتی” کہلاتا ہے۔

 

Comments are closed.