محمد حنیف
صحافی و تجزیہ کار
سنہ 1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف پہلا اور بڑا فوجی آپریشن چل رہا تھا تو ایک جی دار کرنل نے چند ہی ہفتوں میں کراچی سے بقول اُن کے سارے گند کا صفایا کر دیا لیکن پھ
ایک پریشانی نے آن گھیرا۔ ایک انٹرویو میں اُنھوں نے مجھے بتایا کہ اپنے جوانوں کو بوٹ بیسن پر ڈیوٹی پر لگایا ہوا ہے ڈر رہتا ہے کہ اِن میں سے کوئی مشین گن سے فائر ہی نہ کھول دے۔
میں نے سہم کر پوچھا کہ اللہ نہ کرے ایسا کوئی کیوں کرے گا۔ کہنے لگے آپ نے بوٹ بیسن دیکھا ہے کبھی شام کو۔ وہاں بغیر آستین کے قمیضیں پہنے لڑکیاں گھومتی ہیں اور ہمارے جوان گاؤں گوٹھوں سے آئے ہیں کِسی کو بھی کِسی دن غیرت آ سکتی ہے۔
میں نے کرنل صاحب کو تسًلی دی کہ کراچی میں لاکھوں لوگ گاؤں گوٹھوں سے آئے ہیں ، آہستہ آہستہ بغیر آستین کی قمیضوں کی عادت ہو جاتی ہے۔ اور ویسے بھی کراچی کا موسم ہی ایسا ہے کہ ۔۔۔۔۔
گذشتہ ہفتے کراچی کے ایک مقامی ٹیلی ویژن کی رپورٹر کو جب کیمرے کے سامنے ایک وردی پوش نے تھپڑ مارا تو مجھے لگا کہ کرنل صاحب کا خدشہ درست تھا۔
صِرف گاؤں گوٹھوں سے آئے ہوئے جوانوں نے ہی نہیں کراچی میں پل بڑھ کر اعلی تعلیم یافتہ بزرگوں نے بھی یک آواز ہو کر کہا کہ ایسی بدتمیز عورت کا یہی علاج ہے۔ کِسی نے اپنا غصہ میڈیا پر نکالا ، کِسی نے رونا رویا کہ آج کل کے رپورٹروں کو صحافت کی الف، ب کا بھی نہیں پتہ۔ صحافت کی تربیت کا کوئی بندوبست نہیں، ریٹنگ کے پیچھے سب ادب آداب بھول بیٹھے ہیں۔
خاتون صحافی کو کیمرے کے سامنے تو ایک تھپڑ پڑا تھا لیکن گھر بیٹھے بدتمیز عورتوں کی بدتمیزیوں سے بھنائے ہوئے میرے بھائیوں اور کئی بہنوں نے تھپڑوں کی ایک مسلسل بوچھاڑ کر دی۔
کچھ نے یہ ضرور کہا کہ ہاں غلطی رپورٹر کی تھی لیکن بہرحال ایک وردی پوش مرد کو عورت پر ہاتھ نہیں اُٹھانا چاہیے تھا لیکن زیادہ تر کا خیال تھا کہ ایسی باتیں کرنے سے ہمارے جوانوں کا مورال ڈاؤن ہو گا، کراچی آپریشن کے ثمرات کا کیا ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔
لیکن سب سے موثر دلیل جو اِس تھپڑ کے حق میں سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اگر عورت مردوں والا کام کرے گی تو اُسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اُسے کوئی عورتوں والی خصوصی رعایت حاصل ہو گی ( یہ دلیل اِس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو خصوصی مراعات حاصل ہیں)۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں گذشتہ کچھ عرصے سے عورتوں نے مردوں والے کام شروع کر دیے ہیں۔ اُن کی تعریف بھی ہوتی ہے اور گالیاں بھی پڑتی ہیں (حالانکہ ہم مرد جانتے ہیں کہ اکثر گالیاں صِرف عورت کے لیے ہی بنی ہیں)۔
ابھی گذشتہ ہفتے ہی نصرت بھٹو کی تصویر گردش کر رہی تھی جِس میں اُن کے سر سے خون نکل رہا تھا اِس لیے کہ اُنہوں نے مردوں والا کام کر کے ڈنڈے کھائے تھے۔ کلثوم نواز شریف کی کار ایک دفعہ کرین سے لٹکی ہوئی پائی گئی تھی۔ جمائما خان کو باپ دادا کے نام پر اِتنے طعنے سننے پڑے کہ وہ بور ہو کر میکے چلی گئیں۔ بے نظیر نے مردوں والے اِتنے کام کیے کہ بالآخر مردوں کی طرح شہید ہونا پڑا۔ ملالہ کا نام اِس لیے نہیں لیتے کہ اُس سے ہماری قومی غیرت کو کپکپی چڑھ جاتی ہے۔
حقوق نسواں کی بات کرنے والے ہمیں بتائیں گے کہ اِس تھپڑ کیس میں ایک غیر تربیت یافتہ، غیر مسلح خاتون رپورٹر کا موازنہ ایک مسلح، باوردی، تربیت یافتہ مرد سے درست نہیں ہے۔ لیکن یہ شاید ہمارے اپنے ہاتھوں میں رُکا ہوا تھپڑ ہے جو ہمیں یہ دلیل سُننے نہیں دیتا اور اندر سے آواز آتی ہے کہ ایسی بدتمیز عورت کا بس یہی علاج ہے۔
اِس مسئلے پر اگر ہمیں عاصمہ جہانگیر کی بات نہیں سننی تو کیا ہم اِسلامی نظریاتی کونسل کے روح رواں مولانا شیرانی سے رائے لے سکتے ہیں۔
جب اُنھوں نے عورت کی پٹائی کے بارے میں اِسلامی ہدایات پر مبنی اپنی رائے دی تو اعتراضات ہوئے اور اُنھیں ٹی وی پر آ کر وضاحت کرنی پڑی۔ اُنھوں نے فرمایا کہ مار صِرف اُس صورت میں جائز ہے جب کوئی عورت ازدواجی حقوق ادا نے کرے۔ اُس صورت میں بھی اُس کے منہ پر تھپڑ مارنے کی اجازت نہیں ہے نہ سر پر جوتے مارنے کی اور ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ عورت کو ہزیمت کا احساس نہ ہو۔
ہمیں نہیں معلوم کہ کراچی کی خاتون رپورٹر کو وردی پوش سے تھپڑ کھا کر احساس ہزیمت زیادہ ہوا یا غصہ زیادہ آیا لیکن ویڈیو دیکھنے والوں نے یقینا اُس ایک تھپڑ میں اپنے رُکے ہوئے تھپڑ بھی شامل کر دیے۔
باقی رہا تربیت کا معاملہ تو آپ ویڈیو دوبارہ دیکھیں اور کہیں کہ اِس رپورٹر کی تربیت ٹھیک نہیں ہوئی پھر اپنے اِرد گرد مسلح، تربیت یافتہ، بوکھلائے ہوئے بندوق برداروں کو دیکھیں اور پریشان ہوں کہ ہم نے اِن کی تربیت کیسی کی ہے کہ اِن کے پاس ہر بدتمیز سوال کا جواب صِرف غیرت سے بھرا ہوا ایک تھپڑ ہے۔
Comments are closed.