اسلام آباد کا نیشنل انسٹیٹوٹ آف سائیکالوجی پاکستان میں صحافیوں پر ایک سروے کر رہا ہے جس میں یہ معلوم کیا جائے گا کہ پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے باعث کتنے پاکستانی صحافی ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔
نیشنل انسٹیٹوٹ آف سائیکالوجی یہ سروے پشاور یونیورسٹی اور ہالینڈ کی وی یو یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کر رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق جن حالات میں پاکستانی صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان حالات میں ذہنی امراض میں مبتلا ہونا کوئی ناممکن بات نہیں۔
اس سروے میں پاکستان بھر سے صحافی انٹرنیٹ کے ذریعے حصہ لیں گے اور یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ مخدوش صورت حال میں وہ کس طرح اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ان پر کیا بیت رہی ہے۔
اس سروے کا اعلان پیر کو اسلام آباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں کیا گیا۔
اس سے پہلے پاکستان میں اس طرح کا کوئی سروے نہیں ہوا ہے جس سے یہ معلوم کیا جاسکے کہ پاکستان کے صحافی ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔
نیشنل انسٹیٹوٹ آف سائیکالوجی کی ڈائریکٹر نائیلہ کمال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک ایسے صحافیوں کے کوئی اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن جن حالات میں پاکستانی صحافی کام کر رہے ہیں ایسے حالات میں ذہنی امراض کا شکار ہونا کوئی حیرت والی بات نہیں۔
پشاور یونیورسٹی کے ابلاغ عامہ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر الطاف خان کے مطابق جب پشاور یونیورسٹی نے دو سال قبل صحافیوں کے لیے ذہنی امراض کے علاج کے لیے مخصوص کلاسز کا آغاز کیا تو ان کے اندازے سے کہیں زیادہ صحافیوں نے ان کلاسز میں حصہ لیا اور اب تک ان کلاسز میں 60 کے قریب صحافی شرکت کر چکے ہیں۔
پاکستان میں ذہنی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مرض کے علاج میں لوگ تب تک دلچسپی نہیں لیتے جب تک یہ مرض شدت اختیار نہیں کر جاتا۔
Comments are closed.