پاکستان کے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے مغوی صاحبزادے شہباز تاثیر لاہور سے اغوا کے چار سال بعد اپنے خاندان سے دوبارہ جا ملے ہیں۔
شہباز تاثیر کے اغوا اور بازیابی کے متعلق لاتعداد سوالات گردش کررہے ہیں جن میں سے صرف چند ہی کے واضح جواب سامنے آ سکے ہیں۔
اُنھیں اب کیوں آزاد کیا گیا
شہباز تاثیر کی رہائی اس وقت عمل میں آئی ہے جب بمشکل ایک ہفتہ قبل ہی پاکستانی حکومت نے شہباز تاثیر کے والد سلمان تاثیر کو توہینِ رسالت کے قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں قتل کرنے والے اُن کے محافظ ممتاز قادری کو پھانسی دی تھی۔
ایک عام خیال کے مطابق شدت پسندوں نے اپنی انتقامی کارروائی کے لیے شہباز تاثیر کا استعمال کرنے کے لیے اُنھیں اغوا کر رکھا تھا۔ اس کے برعکس ایسا لگتا ہے کہ وہ اغوا کاروں کی رضامندی سے رہا ہوئے ہیں۔
اس کے متعلق مختلف نظریات موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے شدت پسند راہِ فرار اختیار کر رہے تھے جس کی وجہ سے شہباز تاثیر کو اپنی تحویل میں رکھنا اُن کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔
دوسرے کہتے ہیں کہ اُن کی رہائی تاوان کی رقم ادا کرنے کے بعد عمل میں آئی ہے۔
سرکاری بیان
پاکستانی حکام کی جانب سے آنے والی ابتدائی معلومات کے مطابق اُنھیں آئی ایس آئی، فرنٹیئر کور کے انٹیلی جنس یونٹ (ایف سی آئی یو) اور بلوچستان پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے محکمے (سی ٹی ڈی) کی مشترکہ کارروائی میں بازیاب کرایا گیا ہے۔
محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ شہباز تاثیر کو ’انٹیلی جنس فورسز اور پولیس اہلکاروں نے کوئٹہ کے شمال میں 25 کلومیٹر دور واقع کچلاک نامی علاقے کے ایک احاطے سے بازیاب کیا۔‘
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر نے شہباز تاثیر کی رہائی کی تصدیق کرنے کے بعد مزید تفصیلات بتانے کا وعدہ کیا تاہم ادارے کے سربراہ کی جانب سے شہباز تاثیر کے ’صحت مند اور توانا‘ ہونے کے حوالے سے یقین دہانی کے لیے ٹوئٹر پر جاری کی گئی متعدد تصاویر کے سوا کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
ریستوران کے مالک نے کیا کہا؟
جب ذرائع ابلاغ بےچینی سے اغوا کاروں سے فائرنگ کے تبادلے یا اُن کی گرفتاری کی خبروں کا منتظر تھے، اسی دوران کچھ نامہ نگاروں نے کچلاک میں سڑک کے کنارے واقع ایک ریستوران کے مالک سے رابطے کیے۔
ریستوران کے مالک نے بتایا کہ لمبے بالوں اور بڑھی ہوئی داڑھی والا ایک شخص شام کے تقریباً پانچ بج کر20 منٹ پر ریستوران آیا اور وہاں کے مقامی مشہور کھانے بکرے کے بُھنے گوشت کا آرڈر دیا۔
کھانا ختم کرنے کے بعد انھوں نے 350 پاکستانی روپوں پر مشتمل بل ادا کیا، اس کے بعد وہ اُٹھ کر کاؤنٹر تک آئے اور ٹیلیفون مانگا، جس پر ریستوران کے مالک نے اُنھیں بتایا کہ اُن کے پاس فون نہیں ہے۔ اُنھوں نے ویٹر سے اُس کا فون مانگا، ایک فون کال کی اور دوبارہ اُسی میز پر بیٹھ گئے۔
شام کے پانچ بج کر 50 منٹ کے قریب فرنٹیئر کور کی گاڑیوں کا ایک قافلہ اُن کے ریستوران کے باہر آن رُکا۔ مذکورہ شخص اپنی میز سے اُٹھے اور ایف سی کی گاڑیوں کی جانب تیزی سے بڑھے۔ کچھ سپاہیوں نے اُن کے سر کے گرد ایک رومال باندھا اور اُنھیں گاڑی میں بٹھانے کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ جانے سے پہلے انھوں نے وہاں موجود دیگر افراد کو حکم دیا کہ وہ ادھر مت دیکھیں۔
ریستوران کے مالک کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ٹیلی ویژن پر شہباز تاثیر کی رہائی کی خبریں سُنیں اور اُن کی تصاویر دیکھیں تب معلوم ہوا کہ اُن کے گاہک شہباز تاثیر تھے۔
ریستوران کے مالک کے بیان کو بہت سے لوگ کچھ یوں دیکھ رہے ہیں کہ سابقہ گورنر کے صاحبزادے کو اغوا کاروں کی جانب سے رضاکارانہ طور پر رہا کیا گیا ہے اور انھیں سکیورٹی فورسز نے بازیاب نہیں کروایا۔
کس نے اغوا کیا
پولیس کی ابتدائی تحقیقات میں شہباز تاثیر کے مقامی کاروباری حریفوں پر توجہ مرکوز کی جا رہی تھی لیکن جولائی سنہ 2013 میں پولیس کو اُن کے اغوا کے مقام سے ایک موبائل فون ملا جس کی مدد سے دو اُزبک اور پانچ پاکستانیوں کو گرفتار کیا گیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف وہ شہباز تاثیر کے اغوا میں ملوث تھے بلکہ ایک امریکی امدادی عہدیدار وارین وینسٹین اور سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے حیدر گیلانی کو بھی انھی نے اغوا کیا تھا۔
لیکن اس وقت تک وہ اُن اغوا شدہ افراد کو پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں مقیم عسکریت پسند گروہوں کے حوالے کر چکے تھے۔
جولائی سنہ 2013 میں گرفتار ہونے والے دو اُزبک بھائیوں نے بتایا کہ وہ اُزبکستان کی اسلامی تحریک (آئی ایم یو) کے رکن ہیں۔ پانچ پاکستانیوں میں سے زیادہ تر انجینیئرنگ کے طالب علم تھے جو ایک پاکستانی شدت پسند گروہ لشکرِ جھنگوی سے وابستہ تھے۔ لشکرِ جھنگوی پاکستانی طالبان، القاعدہ اور اس سےملحقہ مختلف بین الاقوامی شدت پسند تنظیموں بشمول آئی ایم یو سے منسلک ہے۔
اُنھیں کیوں اغوا کیا گیا؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ منگل کے روز اپنی رہائی سے قبل شہباز تاثیر ٹی ٹی پی کے کچھ عناصر کے پاس تھے، جو اپنے مضبوط گڑھ جنوبی وزیرستان میں کئی سالوں سے آئی ایم یو کے میزبان رہے ہیں۔
بھتہ اور اغوا برائے تاوان اس پورے شدت پسند گروہ کے لیے کمائی کا اہم ذریعہ رہا ہے۔ تاوان سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کے لیے بھی اغوا کا حربہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
ماضی میں پاکستانی اور افغان حکومت دونوں کی جانب سے اپنے سفارت کاروں کی رہائی کے لیے تاوان ادا کیا گیا ہے جن میں سے کم از کم ایک پاکستانی اور ایک افغانی سفارت کار شامل ہیں۔
زیادہ تر مواقع پر رقم کا تبادلہ ٹی ٹی پی کے سربراہان کے ہاتھوں کیا گیا۔ شہباز تاثیر کے معاملے میں اطلاعات کے مطابق بہت بڑی رقم کا مطالبہ کیا گیا تھا جو بعد میں کم کرکے ایک ارب پاکستانی روپے (ایک کروڑ امریکی ڈالر) کردی گئی تھی۔
تاہم تاوان کی رقم میں بھاؤ تاؤ جاری رہا اور کچھ حلقوں کی جانب سے عندیہ ملتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک، جس کی تردید کے باوجود خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستانی کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حمایت کا لُطف اٹھاتا رہا ہے، اُس نے تاوان کی رقم کم کرانے کے سودے میں ثالث کا کردار ادا کیا۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ کسی قیدی کی رہائی بھی اس معاہدے کا حصہ تھی یا نہیں۔
بلوچستان کیوں؟
پاکستان کی جانب سے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن بلوچستان کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے جہاں اب تک ایسی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
اِن علاقوں میں بڑے پیمانے پر افغان مہاجرین آباد ہیں۔ وہاں مقیم افغان طالبان کی قیادت کو کوئٹہ شوریٰ کہا جاتا ہے۔
وزیرستان میں کارروائیوں کے دوران اس علاقے کے جنوبی حصوں میں مقیم ٹی ٹی پی اور آئی ایم یو کے زیادہ تر شدت پسندوں نے بلوچستان کے شمالی علاقوں کی جانب نقل مکانی کی ہے۔
وہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے زیادہ تر حصے تک نقل مکانی بھی کر سکتے ہیں۔
Comments are closed.