کراچی بدامنی کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے رینجرز کے کراچی میں علیحدہ تھانے قائم کرنے اور ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار دیے جانے کے مطالبات مسترد کر دیے ہیں۔
سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے بنچ کے سربراہ جسٹس امیر ہانی مسلم کی طرف ان کے بارے میں دیے گئے کچھ جملوں کی بنا پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کہا کہ رینجرز جن اختیارات کی خواہش مند ہے وہ عدالت کی اجازت سے نہیں بلکہ قانون سازی کے ذریعے سے مل سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ رینجرز کے وکیل نے عدالت میں رپورٹ میں کہا تھا کہ اختیارات پر قدغن کی وجہ سے ان کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے، انھیں تھانوں کے قیام، ایف آئی آر کے اندراج، تحقیقات کر کے چالان عدالت میں پیش کرنے کا اختیار دیا جائے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ رینجرز کو مطلوب اختیارات صرف پولیس کے پاس ہیں، جب تک ضابطہ فوجداری میں ترمیم نہیں کی جاتی، یہ اختیارات نیم فوجی دستوں یا پیرا ملٹری فورس کو نہیں دیے جا سکتے۔
عدالت نے رینجرز کا یہ بھی مطالبہ مسترد کر دیا کہ اس کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت اختیارات 120 روز کے بجائے ایک سال کے لیے دیے جائیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا بھی اس کے دائرہ اختیار میں نہیں، اس معاملے کو صوبائی اور وفاقی حکومتیں اپنی سطح پرحل کریں۔
جمعرات کو سماعت کے موقعے پر آئی جی غلام حیدر جمالی نے جسٹس امیر ہانی مسلم پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ‘ نے چند روز قبل میرے بارے میں نامناسب ریمارکس دیے تھے جو آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہیں۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے جواباً کہا کہ وہ مقدمہ میرٹ پر چلا رہے ہیں۔
آئی جی نے بتایا کہ عدالت کے احکامات کے مطابق 2012 سے دوبارہ کھولےگئے مقدمات کی تفصیلات پیش کیں اور بتایا کہ 2012 کے ٹارگٹ کلنگ کے 408 مقدمات ایسے تھے جن کے تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی، عدالت کے حکم پر ان کو دوبارہ کھولا گیا اب 408 میں سے 158 مقدمات میں کافی حد تک پیش رفت ہوئی ہے۔
سماعت کے موقعے پر ملیر کی ساڑھے 11 سو ایکڑ زمین ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو دینے اور ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے یہ زمین بحریہ ٹاؤن کے دینے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ اس معاملے کی تحقیقات قومی احتساب بیوریو کی جانب سے کی جا رہی ہے جو دو ماہ میں مکمل ہو جائے گی جس پر عدالت نے سماعت دو ماہ کے لیے ملتوی کر دی۔
Comments are closed.