پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کا کنٹینر لگا کر راستے بند کرنا عدلیہ کی توہین ہے اور حکومت کے ان اقدامات سے اُن کا نہیں بلکہ عدلیہ کا ٹرائل ہو رہا ہے۔
ادھر پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے دارالحکومت کو بند کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔
٭ آج حکومت سے ٹکر لینے کی ضرورت نہیں
٭ پاناما لیکس کا معاملہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ سنے گا
اتوار کو اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ کے باہر کارکنوں اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے ملک بھر سے اپنے کارکنوں کو پیر کو بنی گالا پہنچنے کی ہدایت کی اور کہا ہے کہ وہ تمام رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے بنی گالا پہنچیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘ کل سب بنی گالا پہنچیں اور یہاں سے ہی دو تاریخ کو نکلیں گے۔’
خیال رہے کہ تحریکِ انصاف نے دو نومبر کو اسلام آباد میں حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنا دینے کا اعلان کیا ہوا ہے۔
عمران خان نے بنی گالا میں بات کرتے ہوئے کہا کہ بدعنوان وزیراعظم سے اُس کی کرپشن کے بارے میں سوال پوچھنا اُن کا حق ہے۔
انھوں نے کہا کہ وزیراعظم کرپشن پر جوابدہ ہیں اور جب اُن سے سوال پوچھا جاتا ہے تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے عدلیہ کی ہدایات کو بھی نظر انداز کر دیا ہے اور عدلیہ کے فیصلے کے خلاف جگہ جگہ راستے بند کیے ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریکِ انصاف کی جانب سے اسلام آباد کو بند کرنے کے اعلان کے حوالے سے ایک درخواست کی سماعت کے بعد کہا تھا کہ کسی بھی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کی سڑکیں دفاتر اور سکول بند نہ کیے جائیں۔
عمران خان نے کہا کہ وہ آزاد عدلیہ کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدارآمد کروائیں۔
انھوں نے کہا کہ حکومت کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف وہ پیر کو عدالت سے رجوع کرں گے اور ‘ہم یہ دیکھیں گے عدلیہ کمزور کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے یا نہیں! عموماً عدلتیں حکومت کا ساتھ دیتی ہیں۔’
عمران خان نے کہا کہ ہم دو نومبر کو شہر کو بند نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جب 10 سے 12 لاکھ افراد شہر میں داخل ہوں گے تو خود ہی شہر بند ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے خود ہی دو نومبر سے پہلے شہر کو بند کر کے لاک ڈؤان کر دیا ہے۔
عمران خان کے اس خطاب کے بعد اسلام آباد میں اتوار کی شام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ بطور وزیرِ داخلہ ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ سیاسی جلسوں کے انعقاد کے حق کے علاوہ شہریوں کی روز مرہ کی زندگیوں میں کوئی خلل نہ آئے۔
انھوں نے امید ظاہر کی کہ دو نومبر کو سکول، ہسپتال اور عدالتیں کھلی رہیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ منصوبہ پاکستان سیکریٹریٹ کے اندر جانے اور پھر کسی کو وہاں داخل نہ ہونے دینے کا ہے۔’ مگر ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا اور ‘دارالحکومت کو بند کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔’
انھوں نے گذشتہ دھرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے انھیں سنہ 2014 میں کہا تھا کہ وہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے تاہم جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور اسلام آباد کو جلسہ گاہ بنایا گیا۔
وزیرِ داخلہ نے گذشتہ روز اسلام آباد پشاور موٹر وے کی بندش اور پولیس اور پی ٹی آئی کے کارکنان کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ وہ انھیں بطور پاکستانی کہتے ہیں کہ ‘جو بیج بوئے جا رہے ہیں وہ پاکستان کی خدانخواستہ جڑیں ہلا دیں گے۔’
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ گذشتہ روز 800 سے ایک ہزار کے قریب مسلح افراد نے پشاور سے اٹک میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پولیس پر تشدد بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صبح ساڑھے چار سو لوگ اسلام آباد میں داخل ہوئے جن میں سے 100 کے قریب کو حراست میں لیا گیا ہے اور ان کی گاڑیوں میں سے کلاشنکوف، سات بلٹ پروف جیکٹس سمیت آنسوگیس گن اور دیگر اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد اور پنجاب میں دفعہ 144 نافذ کی جا چکی ہے جس کے تحت پانچ سے زیادہ افراد کے اجتماع اور لاؤڈسپیکر کے استعمال پر پابندی عائد ہے۔
Comments are closed.