پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے حملے کے بعد بند کی جانے والی یونیورسٹی 26 دن کے وقفے کے بعد پیر سے دوبارہ کھول دی گئی ہے۔
یونیورسٹی کے ترجمان سعید خان خلیل نے بی بی سی کو بتایا کہ یونیورسٹی کی سکیورٹی کمیٹی نے حفاظتی انتظامات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد ادارے کو نصابی سرگرمیوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں کی بحالی کے بعد پہلے دن حاضری تقریباً 50 فیصد رہی ہے تاہم امید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں یہ تعداد سو فیصد تک پہنچ جائے گی۔
سعید خان خلیل کا کہنا تھا کہ طالبان کے حملے کے بعد یونیورسٹی کی سکیورٹی بہتر بنانے کےلیے دیواریں اونچی کرنے، نگرانی کے لیے ٹاور بنانے اور کچھ دیگر تعمیراتی کام کا آغاز کیا گیا تھاجو 80 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی سکیورٹی پہلے کے مقابلے میں کافی حد تک بہتر بنائی گئی ہے جبکہ ریٹائرڈ فوجی اہلکار بھی تعینات کیے جا رہے ہیں تاکہ آئندہ دہشت گردی سے متعلق ہر قسم کے خطرے کا مقابلہ کیا جاسکے۔
ترجمان کے مطابق یونیورسٹی کی ہر عمارت پر دو دو حفاظتی چوکیاں تعمیر کی گئی ہیں اور محافظین کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ 20 جنوری کو چار طالبان شدت پسندوں نے چارسدہ میں واقع باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کیا تھا جس میں 14 طلبا اور یونیورسٹی کے چار ملازمین ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ مرنے والوں میں یونیورسٹی کے ایک پروفیسر بھی شامل ہیں۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درہ آدم خیل اور پشاور شاخ نے قبول کرنے کا دعوی کیا تھا تاہم طالبان کے مرکزی ترجمان محمد خراسانی نے اس حملے سے لا تعلقی کا اظہار کیا تھا۔
اس حملے کے چند دن بعد پاکستانی فوج نے دعوی کیا تھا کہ حملے میں ملوث سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ چند دن پہلے بھی اس واقعے میں ملوثایک اور اہم سہولت کار کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
باچا ِخان یونیورسٹی کا قیام 2012 میں لایا گیا تھا۔ اس سے پہلے یہ ولی خان یونیورسٹی مردان کے ایک کیمپس کے طور پر کام کر رہی تھی تاہم بعد میں اسے باچا خان یونیورسٹی میں تبدیل کیا گیا۔
تقریباً دو سو کنال کے رقبے پر پھیلی ہوئی یہ یونیورسٹی تقریباً پندرہ شعبہ جات پر مشتمل ہے جس میں 500 سے زیادہ اساتذہ اور عملے کے دیگر ارکان تعینات ہیں۔
Comments are closed.