انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین ماہ سے جاری ہند مخالف احتجاجی تحریک کے دوران مسلح شدت پسندوں نے پولیس اہلکاروں سے 50 سے زائد رائلفز چھین لی ہیں۔
اسلحہ چھیننے کے یہ واقعات زیادہ تر ایسی حفاظتی چوکیوں میں رونما ہوئے جو اقلیتی پنڈت آبادیوں کی حفاظت کے لیے قائم کی گئی تھیں۔
ردعمل کے طور پر حکومت نے حفاظتی چوکیوں کو ہٹا لیا ہے، جس کے بعد ایسے کشمیری پنڈت خاندان خوف زدہ ہیں جو کئی سال سے کبھی بھی وادی چھوڑ کر نہیں گئے تھے۔
کشمیر ڈائری: کشمیریوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ ہے؟
کشمیر ڈائری: مظفر پنڈت کی موت کب ہوئی؟
واضح رہے کہ 26 سال قبل جب کشمیر میں ہند مخالف مسلح شورش شروع ہوئی تو ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کشمیریوں کی تعداد چار لاکھ کے آس پاس تھی۔
مسلح افراد کے ہاتھوں متعدد پنڈت شہریوں کے قتل کی وجہ سے اقلیتی پنڈت آبادی خوفزدہ ہوگئی اور ہزاروں خاندان وادی چھوڑ کر چلے گئے۔ ایسے تقریباً 650 خاندان ہیں جو اپنی زمینیں، جائیدادیں اور مویشیوں کی وجہ سے کشمیر میں ہی مقیم رہے، ان کی تعداد آٹھ ہزار سے زیادہ ہے۔ جن علاقوں میں یہ پنڈت شہری آباد ہیں وہاں حکومت نے حفاظتی چوکیاں تعمیر کی تھیں جہاں چار یا چھہ پولیس اہلکار اقلیتی آبادی کی حفاظت کے لیے تعینات تھے۔
گذشتہ تین ماہ کے دوران جہاں کشمیر میں ہند مخالف احتجاجی تحریک اپنے عروج پر پہنچی، وہیں مسلح حملوں میں اضافہ ہوا۔ اس دوران ایسی کئی چوکیوں پر دھاوا بول کر مسلح شدت پسندوں نے پولیس اہلکاروں سے ہتھیار چھین لیے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ تین ماہ سے کم از کم 50 رائفلز چھین لی گئی ہیں۔
مسلح رہنما برہان الدین وانی کی ہلاکت کے بعد حزب المجاہدین کی قیادت کرنے والے ذاکر بٹ نے ایک ویڈیو بیان میں ایسے نوجوانوں کا خیر مقدم کیا ہے جو پولیس اہلکاروں کے ہتھیار چھین کر ان کی تنظیم میں شامل ہوئے ہیں۔
تاہم ذاکر بٹ نے کہا ‘کشمیری پنڈت یہاں کے باشندے ہیں۔ ان کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ ہماری لڑائی فوج کے ساتھ ہے ‘ لیکن اس یقین دہانی کے باوجود یہاں آباد پنڈت شہریوں کو عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ اشوک بٹ کہتے ہیں ‘ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ پولیس والوں کے ہتھیار ہی اُڑا لیے گئے ہوں۔ حکومت کو ہماری حفاظت کا مناسب بندوبست کرنا ہوگا۔ اس صورت حال کا جواب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ حفاظتی چوکیاں ہی ہٹا لی جائیں۔’
حکمران بی جے پی کے رہنما اشوک کول کہتے ہیں: ‘پولیس کی کوئی حکمت ہوگی جس کے تحت چوکیاں ہٹالی گئیں، تاہم حکومت پنڈتوں کی سلامتی کے بارے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔’
ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ فیصلہ تفصیلی جائزے کے بعد لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’20 یا 30 خاندانوں کی حفاظت کے لیے چار پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔ اگر وہ خود اپنے ہتھیاروں کی حفاظت نہیں کر سکتے تو اتنے لوگوں کی رکھوالی کیا کریں گے۔’
پولیس کا کہنا ہے کہ اب کشمیری پنڈتوں کی حفاظت کے لیے ‘کلسٹر سیکورٹی’ کا بندوبست کیا جائے گا جس کے مطابق کئی بستیوں کی حفاظت کے لیے پولیس کا ایک کیمپ قائم کیا جائے گا، جس میں 20 یا 30 پولیس اہلکار ایک ساتھ موجود رہیں گے۔
تاہم کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پولیس یا فوج انھیں سیکورٹی فراہم نہیں کر سکتی۔ کشن لعل کہتے ہیں ‘ہماری سب سے بڑی سیکورٹی اکثریتی مسلم آبادی ہے لیکن حکومت وادی چھوڑ چکے پنڈتوں کو واپس لانے میں سنجیدہ نہیں ہے۔’
کشن لعل پوچھتے ہیں کہ اگر پنجاب کی حکومت نے 11 سال کے اندر ریاست کا مسئلہ حل کر دیا تو یہاں کی حکومت اصل مسئلے کی جانب توجہ دے کر اسے حل کیوں نہیں کرتی؟
مقامی پنڈتوں کی نمائندگی کرنے والی کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کے سربراہ سنجے تکو کا کہنا ہے کہ پنڈتوں کی سیکورٹی کے لیے اکثریتی مسلم آبادی ہی سب سے بڑی ضمانت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت پنڈتوں کے لیے الگ کالونیاں بنانے کی بجائے ان کی باعزت واپسی کے لیے اقدامات اٹھائے تو بہتر ہوگا۔
Comments are closed.