انڈونیشیا کے حکام نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے ایک پاکستانی سمیت 14 غیر ملکیوں کی سزائے موت روکنے کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
سزائے موت پانے والوں میں 52 سالہ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کے علاوہ نائجیریا، زمبابوے اور انڈیا کے شہری بھی شامل ہیں۔
٭ چین میں قید پاکستانیوں کی واپسی کے لیے مذاکرات جاری
ان تمام افراد پر منشیات کی سمگلنگ کا الزام ہے اور انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل ایچ محمد پراسیتیو کا کہنا ہے کہ انھیں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب فائرنگ سکواڈ کے ذریعے سزائے موت دی جائے گی۔
انڈونیشیا نے سنہ 2013 میں سزائے موت پر پابندی ختم کر دی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی سمیت تمام مجرمان کی سزا پر عمل درآمد جاوا کے جزیرے نسکام بنگن کی جیل میں ہوگا جہاں انھیں پیر کو منتقل کیا گیا ہے۔
جس جیل میں انھیں سزائے موت دی جائے گی وہاں ایمبولینسیں اور تابوت بھی پہنچا دیے گئے ہیں۔
جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانے نے سزائے موت پانے والے پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کے لیے انڈونیشیا کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا تھا اور اس مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کی تھی۔
تاہم اب پاکستانی سفارتخانے کے ناظم الامور سید زاہد رضا کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو ان کی سزا پر فوری عمل درآمد کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل آفس کے ترجمان محمد روم کا بھی کہنا ہے کہ یہ اموات ’ہمارے مثبت قوانین پر عمل درآمد ہیں اور ان میں تاخیر یا تعطل نہیں کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تمام مقدمات میں بشمول اپیلوں کے طویل قانونی کارروائی کی گئی۔ ان تمام (افراد) کو تمام مرحلوں پر مواقع فراہم کیے گئے۔‘
ذوالفقار علی کے بیٹے فضل عباس نے لاہور میں خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری یہی درخواست ہے کہ میرے والد کو وہاں سے جلد از جلد چھڑوایا جائے۔ والد کو رات تک کا وقت دے دیا گیا ہے اور میری صدرِ پاکستان اور وزیراعلیٰ سے درخواست ہے کہ انھیں جلد از جلد چھڑوایا جائے۔‘
ذوالفقار علی کے بھانجے قاسم شاہ نے کہا ہے کہ’بعد میں گردیپ سنگھ نے بتایا کہ میرا اس بندے(ذوالفقار علی ) کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور بعد آپ کے کہنے پر میں نے اس کا نام لیا تھا لیکن میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن پتہ پھر بھی انھوں نے کس دشمنی کے ساتھ انھیں دھکیل دیا۔‘
سنہ 2004 میں مغربی جاوا میں اپنی رہائش گاہ سے حراست میں لیے جانے والے ذوالفقار علی کو 300 گرام ہیروئن رکھنے پر سنہ 2005 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
انھیں انڈونیشیا کے شہری گردیپ سنگھ کے بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا جو سنہ 2004 میں جکارتہ کے ہوائی اڈے پر ہیروئن سمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔
تاہم بعدازاں گردیپ اپنے اس بیان سے منحرف ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ یہ بیان پولیس نے ان سے زبردستی لیا تھا اور ذوالفقار علی بےگناہ ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت حقوقِ انسانی کے گروپوں نے ذوالفقار علی کی سزا پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ نہ صرف ان پر تشدد کیا گیا بلکہ ان پر چلایا گیا مقدمہ بھی منصفانہ نہیں تھا۔ بدھ کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید رعد الحسین نے بھی کہا تھا کہ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے ان افراد پر چلائے گئے مقدمات منصفانہ نہیں تھے۔
Comments are closed.