اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے اعلان کے پیش نظر وزارت داخلہ کو دوسرے صوبوں سے پولیس فورس طلب کرنے کے لیے خط لکھا ہے۔
اس خط میں جن صوبوں سے پولیس فورس منگوانے کے بارے میں کہا گیا ہے ان میں پنجاب کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس بھی شامل ہے۔
عمران خان کی 30 اکتوبر کے بجائے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال
رائے ونڈ: عمران خان کی وزیرِ اعظم کو محرم تک کی مہلت
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مختلف اداروں کو لکھے گئے خط میں کہا گیاہے کہ یہ ادارے 23 اکتوبر تک ان عمارتوں کا کنٹرول ضلعی انتظامیہ کے حوالے کر دیں۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال دے رکھی ہے۔
جن عمارات کو ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں دینے کی بات کی گئی ہے اُن میں سپورٹس کمپلکس، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کیمپس کےعلاوہ سیکٹر جی سکس اور جی نائن میں واقع کمیونٹی سینیٹرز شامل ہیں۔
اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا ختم نہیں ہوتا اس وقت تک یہ عمارتیں ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہی رہیں گی۔
اسلام آباد میں دفعہ 144 نافد ہے جس کے مطابق وہاں جلسے، جلوس اور احتجاجی مظاہرے کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ناگہانی صورت حال میں ضلعی انتظامیہ فوج کو بھی طلب کر سکتی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ کسی کو اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ سرکاری دفاتر یا سڑکیں بند ہونے کی صورت میں قانون حرکت میں آئے گا۔
سنہ 2014 کے احتجاجی دھرنے میں اس وقت کے پولیس سربراہ آفتاب چیمہ نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر لاٹھی چارج کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد حکومت نے انھیں عہدے سے ہٹا کر ان کے خلاف تحقیقات شروع کردی تھیں۔
ادھر قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج اپوزیشن کا حق ہے تاہن سڑکیں بند کرنا جرم کرنے کےزمرے میں آتا ہے۔
Comments are closed.