القاعدہ کے ایبٹ آباد میں ہلاک کیے جانے والے رہنما اسامہ بن لادن کی بظاہر خواہش تھی کہ شدت پسندوں کو پاکستان کے مغربی علاقوں کے ساتھ ساتھ مشرقی سرحد پر بھی پاکستان فوج پر حملوں کے ذریعے اسے کمزور کرنا چاہیے۔ ان کے خیال میں تمام خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر قبضے کے علاوہ بھارت کے ساتھ تعینات فورسز پر حملے کرنے چاہیے۔
امریکی خفیہ ادارے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کی جانب سے اسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد کی رہائش گاہ سے ملنے والی تحریری دستاویزات کی تازہ کھیپ منگل کے روز جاری کی ہے۔ انگریزی میں ترجمے کے بعد جاری کی گئی سو سے زائد خطوط میں پاکستان میں جہاد اور پاکستانی طالبان کی تنظیم نو سے متعلق دو دستاویزات اہم ہیں۔
دونوں دستاویزات لگ بھگ 30 صفحات پر مشتمل ہیں۔ ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایبٹ آباد میں موجود ہونے کے باوجود وہ ناصرف اپنی القاعدہ بلکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی پالیسی سازی اور انتظامی امور میں کس حد تک شامل تھے۔
’پاکستان میں جہاد کیوں اور کب؟‘ کے عنوان سے لکھے ایک کتابچے میں پنجاب میں کارروائیوں سے متعلق لکھا ہے کہ اگر امن عامہ کی صورتحال خراب کرنے کے نتیجے میں وہ فوج کو پنجاب میں لانے پر مجبور کرتے ہیں تو یہ ان کے لیے ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ ’اس وجہ سے فوج پنجاب میں رہنے پر مجبور ہوگی اور سرحد (خیبر پختونخوا) پر اپنی توانائیاں مرکوز کرنے سے قاصر ہوگی۔
’اسامہ پاکستانی فوج کو مغربی اور مشرقی حصوں میں الگ کرنے کے حامی تھے جس کی وجہ سے وہ سرحد اور بلوچستان میں بہت جلد اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکیں گے خصوصاً جب انھیں علم ہوگا کہ وہ پنجاب اور سندھ سے کٹے ہوئے ہیں۔‘
سال 2009 اور 2011 کے درمیان لکھی گئی اس تحریر میں اسامہ پہلے پاکستان میں میدان جنگ نہ سجانے کی دلیل دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شدت پسند پہلے افغانستان میں ایک اسلامی ریاست یا امارت قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو بعد میں دیگر خطوں اور ممالک تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ لیکن افغانستان میں اسلامی امارت کے گرنے کے بعد ان کے لوگ تتر بتر ہوئے اور ایسا کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ لیکن سب سے اہم عنصر ان کے مطابق پاکستان میں عوام اور ’مجاہدین‘ کا ذہنی طور پر جہاد کے تیار نہ ہونا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب طالبان کو سوات میں بھی شکست ہوچکی تھی۔
پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے لیے اسامہ نے جو جواز پیش کیے ان میں پاکستان اور افغانستان کو ایک میدان جنگ سمجھنا، پاکستان اور محض پاکستان نہیں بلکہ برصغیر سمجھنا، اس وقت پاکستان کا بقول ان کے منقسم ہونا، بےنظیر بھٹو کے قتل کے بعد کسی سیاسی رہنما کی اسے بحران سے نکالنے کی صلاحیت کی عدم موجودگی اور عوام میں فوج کی مقبولیت انتہائی کم ہونے کی وجہ سے اسے واپس بیرکوں میں بھیجنے کی تمنا شامل ہیں۔
اسامہ کے خیال میں امریکہ پاکستان کو تقسیم کرنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے ایک منقسم پاکستان کا نقشہ بھی تیار کیا ہوا تھا جس میں کراچی سنگاپور یا ہانگ کانگ کی طرز پر آزاد سویلین صدارت، بلوچستان کو آزاد بنانا، شمالی علاقہ جات میں اسماعیلیوں کی حکمرانی، سرحد (خیبر پختونخوا) کو افغانستان میں ضم کرنا اور باقی ماندہ پنجاب اور سندھ کو آزاد ریاست یا بھارت کے ساتھ ضم کرنا شامل ہیں۔ اسامہ کی گوادر سے متعلق پیشن گوئی کم از کم درست ثابت ہوئی ہے جس میں انھوں نے اسے چین کے حوالے کےے جانے کی بات کی تھی۔ اس تقسم کے لیے امریکہ دو طریقے ان کے مطابق استعمال کرسکتا ہے۔ ایک بھارت کے ذریعے یا پھر خود براہ راست مداخلت کرکے جوہری ہتھیاروں پر قبضہ ہیں۔
اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسامہ پاکستان میں کارروائیوں کے آغاز کے حامی دکھائی دیتے تھے۔ ’آج پاکستان میں افغانستان میں اسلامی امارت اور وزیرستان میں جہادی مرکز کے دفاع کے لیے جہاد ضروری ہوگیا ہے۔‘ کتابچے میں پاکستان میں کارروائیوں کا طریقہ کار بھی تفصیل سے دیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ سوچ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خدشات سے بہت مطابقت رکھتے ہیں۔
ایک دوسرے مکتوب میں اسامہ بن لادن تحریک طالبان پاکستان کی تنظیمی امور پر تفصیلی رائے دے رہے ہیں۔ ان کا لکھنا تھا کہ کون امیر ہونا چاہیے، شوریٰ کے اراکین کہاں کہاں سے ہونے چاہیے۔ اس کے علاوہ فنانس، اطلاعات اور انٹیلیجنس کمیٹیوں کی ساکھ کیا ہونی چاہیے اور انھیں کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا چاہیے۔ اخراجات کے لیے اغوا کے طریقہ کار پر انھوں نے کافی تفصیل سے بات کی ہے۔ ان میں احمدی، آغا خانی، ہندو، معروف شیعہ تاجر، سرکاری اہلکار اور افعانستان میں امریکیوں کی مدد کرنے والے شامل ہیں جن سے باآسانی رقم نکلوائی جاسکتی ہے۔ تاہم انھوں نے اغوا شدہ افراد پر تشدد کی مکمل ممانعت بھی قرار دی ہے۔
ان دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان پر گہری نظر رکھتے ہوئے تھے اور یہاں کے شدت پسندوں کی رہنمائی بھی بھرپور انداز میں کر رہے تھے۔
Comments are closed.