ارے ٹرمپ جیسوں سے کیا ڈرنا

_92567787_00abe0c5-bd70-4a93-ae06-0faf47b84ce6

آدھے امریکیوں کے پاس تو ٹرمپ سے ڈرنے کا جواز ہے مگر مجھ جیسے خوشہ چین دانشور خود کو ٹرمپ گزیدہ سمجھ کے کیوں سر کھجا رہے ہیں؟

رعائیتی 16 F اوباما کے دور میں بھی نہیں ملے اب بھی نہیں ملیں گے۔ ڈو مور پہلے بھی کہا جا رہا تھا اب بھی کہا جائے گا۔دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام پہلے بھی لگتا تھا اب بھی لگے گا۔اقتصادی امداد پہلے بھی مشروط تھی۔اب شاید اور بندھ جائے۔ نوے کے عشرے میں امریکی امداد بالکل رک گئی تھی تب کون سا والا ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں تھا۔

دہشت گردی کے خلاف 120 ممالک میں امریکہ کی جنگ ٹرمپ کو ورثے میں ملی۔ پاکستان، یمن اور صومالیہ میں ڈرون حملے ری پبلیکنز نے شروع کروائے ڈیموکریٹس نے جاری رکھے۔ ہلیری جیت جاتی تو کیا بند ہو جاتے؟

پچھلے پندرہ برس میں پاکستانی معیشت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حصہ داری کے عوض بقول سٹیٹ بینک 118 ارب ڈالر کا براہِ راست و بلا واسطہ نقصان ہو چکا ہے اور بدلے میں امریکہ کی غیر ٹرمپ حکومتوں نے محض 14 ارب ڈالر کی اجرت کولیشن سپورٹ فنڈ کے نام پر تھمائی۔کیا ہلیری کے جیتنے سے پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری بہنے لگتی؟

ہاں ٹرمپ نے پہلے ہی ہلے میں تیس لاکھ غیر قانونی تارکینِ وطن ملک سے باہر نکالنے کا عندیہ دیا ہے تو؟ خلیجی ریاستوں نے چار برس کے دوران ڈھائی لاکھ پاکستانیوں سمیت ایک ملین کے لگ بھگ غیر قانونی تارکینِ وطن نکالے اور وہ بھی یہ کہہ کر کہ یہ اقتصادی بوجھ اور سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ٹرمپ بھی تو یہی کہہ رہا ہے۔

پاکستان بھی تو افغان مہاجرین پر واپس جانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہا ہے ۔اتنا دباؤ کہ نیشنل جیوگرافی کی پوسٹر گرل شربت گلہ کو بھی ہیپاٹائٹس سی سمیت ہسپتال سے اٹھا کر طورخم پار پہنچا دیا۔

فلسطین نے ٹرومین سے اوباما تک چودہ امریکی صدور بھگت لیے۔اب پندرہواں بھی سہی۔

نائن الیون کے بعد سے امریکی مسلمان اپنی غیر اعلانیہ نگرانی سے مسلسل بے چین ہیں۔ اب اگر اعلانیہ نگرانی شروع ہو جاتی ہے تو کیا اہم تبدیلی آئے گی؟

امریکہ، ٹرمپ مخالف احتجاج

ٹرمپ انتظامیہ میں جس طرح کے لوگ لائے جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے ان کی مرتب کردہ پالیسیوں سے امریکہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی نسلی کشیدگی میں دوبارہ لوٹ جائے۔ میکھارتھی ازم ایک نئے عزم کے ساتھ قبر سے نکل آئے۔

کوکلس کلان جیسی متشدد تنظمیں کھل کھیلیں۔سیاہ فاموں کی زندگی جہنم ہو جائے۔ مسلمانوں سے مذہبی منافرت کو کئی گنا بڑھاوا ملے۔ امریکہ کا لبرل جمہوری امیج لڑکھڑا کے مجسمہِ آزادی کے قدموں میں آن گرے اور امریکن ڈریم فاشزم کی کگار پر پہنچ جائے؟

مگر ہم کیوں ٹینشن لے رہے ہیں؟ ہم تو پہلے ہی سے اسی دور میں جی رہے ہیں جس میں امریکہ اب داخل ہونے والا ہے۔ کیا ہمارے ہاں نسلی و مذہبی اقلیتیں محفوظ ہیں؟ کیا ہمارے کوکلس کلان عرف نان سٹیٹ ایکٹرز یہاں سے وہاں تک پچھلے چالیس برس سے مذہبی و نسلی آگ نہیں لگا رہے؟ کیا ملازمتیں اور روزگار کے مواقع علاقائی، نسلی و مذہبی فرق سے آلودہ نہیں؟

ہاں ٹرمپ گن لابی کا نمائندہ ہے؟ ہمارے ہاں تو اس قدر بے نامی اسلحہ ہے کہ گن لابی کیا بیچتی ہے۔ ہاں ٹرمپ اوباما کیئر صحت منصوبہ ختم کر دے گا۔ مگر ہمارے ہاں تو ختم کرنے کے لیے صحت منصوبہ ہے ہی نہیں۔

ہاں ٹرمپ انتظامیہ غیر ملکی بالخصوص مسلمان طلبا کی آمد کی حوصلہ شکنی کرے گی۔ مگر ہم کیوں تشویش میں ہیں؟ یاد نہیں نائن الیون سے پہلے تک پاکستانی یونیورسٹیوں میں عرب ، افریقی ، ایرانی ، جنوب مشرقی ایشیائی طلبا شوق در شوق اور مذہبی مدارس میں جوق در جوق پڑھنے آتے تھے؟ آج کتنے غیر ملکی مسلمان طلبا پاکستان کے تعلیمی اداروں میں موجود ہیں؟ آپ کو یہی خدشہ تھا نا کہ وہ دہشت گرد ہو سکتے ہیں۔ ٹرمپ کو بھی تو یہی خدشہ ہے۔

ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے ان ممالک اور معاشروں کا تو ڈرنا بنتا ہے جن کے ہاں انسانی جان، انسان دوستی، اختلافِ رائے، روشن خیالی، وسیع المشربی، مساوات اور جمہوری اقدار کی تھوڑی بہت اہمیت ہے۔ وہ جانیں اور ٹرمپ جانے۔ ہم کاہے کو نیند اڑا بیٹھے ہیں؟

بھینس بھینس ہوشیار تجھے چور لے چلے۔ بھینس نے پلٹ کے کہا وہ بھی چارہ ہی دیں گے۔

Comments are closed.