پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے فوجی عدالتوں کی جانب سے 12 شدت پسندوں کو دی جانے والی سزائے موت کی توثیق کردی ہے۔ ان افراد کو بنوں میں جیل توڑنے، سکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں پر حملوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنائی ہے۔
جمعرات کو فوج کے شعبہ تعقلات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق فوجی عدالت سے موت کی سزا پانے والوں میں محمد عربی کا تعلق ایک کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے ہے جبکہ وہ بنوں جیل توڑنے کے واقعہ میں ملوث ہونے کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملوں میں بھی ملوث تھے۔
محمد عربی کو تین مقدمات میں مجرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان رفیع اللہ اور قاری آصف محمد نے لاہور میں وقار حیدر کو قتل کرنے میں معاونت کی تھی۔ ان دنوں مجرموں پر قتل میں معاونت کے ساتھ ساتھ آتش گیر مادہ اور آتشی اسلحہ رکھنے کے جرائم ثابت ہوئے تھے۔
مجرمان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا تعلق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ سے ہے۔
بیان کے مطابق مجرم صالح قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں ملوث تھے، جس کا اعتراف اُنھیں نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے بھی کیا ہے اور اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اُنھیں موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
ایک اور مجرم محمد ذیشان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیم القاعدہ کا متحرک رکن ہے اور وہ سکیورٹی فورسز پر حملوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملوں میں بھی ملوث ہے۔
جن دیگر مجرمان کو موت کی سزائیں سنائی گئی ہیں اُن میں نثار خان، شوکت علی،امداد اللہ، محمد عمر، صابر شاہ، خاندان اور انور علی شامل ہیں۔ ان تمام مجرموں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں تمام مقدمات کی تفصیلات کا ذکر نہیں کیا گیا۔
یاد رہے کہ فوجی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات میں گرفتار ہونے والے افراد کے ورثا کا کہنا ہے کہ اُن کے علم میں نہیں ہوتا کہ اُن کے عزیزوں کے خلاف مقدمے کے سماعت کہاں پر ہو رہی ہے اور نہ ہی اُنھیں وکیل کرنے کی اجازت دی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے چند روز قبل فوجی عدالتوں سے موت کی سزا پانے والے چار مجرموں کی سزاوں پر عمل درآمد روک کر فوج کی لیگل برانچ سے جواب طلب کیا ہے۔
جن مجرموں کی سزاوں پر عمل درآمد روکا گیا ہے اُن میں سنہ 2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے مقدمے کے دو مجرمان بھی شامل ہیں۔
Comments are closed.